تاریخی میگزین کے کور پہ حجاب میں تصویر؟ رَنرخاتون نے نئی تاریخ رقم کر دی۔

یقیناًاچھا  لگتا ہے کہ جب خواتین ہوں  تو مختلف قوموں کی لیکن مقصد سب کا مشترکہ ہو، جیسا کہ  دوڑ لگانا۔اگر ہر خاتون اپنی مرضی کے  حلیے میں دوڑ سکتی ہے تو پھر ایک مسلمان خاتون کے حجاب پر اعتراض کیوں؟

جی ہاں! اِس بات کو دو ہفتے پہلے  ایک 32 سالہ خاتون راحف خطیب نے ثابت کر دکھایا کہ مسلم خواتین   اپنی اقدار کو نہیں چھوڑتیں  اوروہ کسی سے کم نہیں۔اُنہوں نےپہلی حجابی خاتون کی حیثیت سے تاریخ بنا ڈالی۔ایک ایسی خاتون جنہیں سب نے ایک فٹنس میگزین کے کور پر سر ڈھانپے  ہوئے دیکھا۔  راحف خطیب کی حجاب پہنے تصاویر ایک معروف میگزین میں شائع ہونے کے بعد ان کو سوشل میڈیا پر جس قسم کےرویے کا سامنا کرنا پڑا اس کی روداد  حال ہی میں today.com نے لکھی ہے جسے ہم اپنےپڑھنے والے دوستوں کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔

یہ واقعی کسی چیلنج سے کم نہیں تھا۔آئیے دیکھتے ہیں ،خطیب ا پنے اِس تجربے کے بارے میں کیا کہتی ہیں؟

اس کا ردِعمل ، اکتوبر کےرننگ خواتین والے  شمارے میں 95 فیصد حیرت انگیز تھا۔

یقیناً ایسا ہونا ہی تھا کیونکہ اول تو مسلم خواتین کم ہی کسی دوڑ میں حصہ لیتی ہیں اور پھر وہ بھی حجاب میں؟ اِس بات نے تو واقعی سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ لیکن  بہت سے لوگوں کے لئے یہ ایک خوشگوار حیرت تھی۔

خطیب نے بتایا کہ

پہلے 48 گھنٹوں میں ، مسلمانوں اور غیر مسلموں  کی طرف سے بہت سے مثبت پیغامات کی بارش ہوئی۔ اِس  بات کو بےتحاشہ شئیر کیا گیا ۔ہر کوئی میرے اور میری کمیونٹی کی مثبت نمائندگی کو دیکھ کر بہت خوش تھا۔

لیکن اس کے ایک ہفتے بعد کیا ہوا؟



ایک نئی بات  کو سب لوگ بخوشی قبول نہیں کیا کرتے۔بس ایسا ہی ہوا۔ کچھ لوگو ں کاناگوار اور نفرت آمیز ردِعمل سامنے آیا۔خطیب کہتی ہیں:

مسلم مخالفین کے حملے شروع ہو گئے۔لوگ مجھے کہنے لگے   کہ بنیان پہن کر  عام حلیے میں واپس آ جاؤں۔ انسٹا گرام پر میرا جو خواتین رَننگ اکاؤنٹ  ہے ،اُس پر مِلا جُلا ردِعمل سامنے آیا۔

خطیب  کو اِس بات کا افسوس  بھی تھا کہ اُن کے اِس عمل کی وجہ سے میگزین کو  بُرا بھلا کہا جانےلگا۔اُن  کا کہنا تھا کہ

مجھے میگزین  کے متعلق بُرا محسوس ہوا کہ لوگ اِسے تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ خطیب کو ہزاروں لائکس اور حوصلہ افزا ءکمنٹس بھی ملے ۔ جہاں ناگوار تاثرات تھے وہاں  بہت سے تعریفی کلمات اور تشکرکا اظہاربھی  تھا۔

خطیب نےفٹنس انڈسٹری کو ایک اچھی  تبدیلی سے روشناس کرایا ہے۔آخر وہ پہلی  حجابی رنر خاتون ہیں اور کسی نے پہلےایسے حلیے میں کوئی رنر  نہیں دیکھی تھی۔دراصل وہ چاہتی ہیں کہ دوسری اقلیتی خواتین کو بھی تقویت ملے جنہوں نے  اُن کوپہلی بار خواتین کی دوڑ میں جانےپر مجبور کیا تھا۔

اپنی اِس خواہش کا اظہار اُنہوں نے کچھ اِس طرح سے کیا:

جب میں کوئی اشتہار دیکھتی ہوں یا میگزین کھولتی ہوں  تو کہتی ہوں کہ تبدیلی کہاں ہے؟آپ سفید رنگ کی رَنرز کو دیکھتے ہیں ، (ہر طرف) سفید رنگ ، سفید رنگ اور کبھی کبھی سیاہ رنگ والی رَنر  بھی۔کسی اور نسل، رنگ اور جنس کی نمائندگی بہت کم ہے۔ ہم اقلیت میں ہیں اور ہم رنرز  بھی ہیں۔

خطیب نے ایک  اہم قدم اُٹھایا۔ سر ڈھانپی رَنر کو دیکھ کر میڈیا میں دکھائے گئے ردِعمل کو قبول کرنا صحیح نہیں۔بلکہ ہمیں مُسکرا کر اُن کی پذیرائی کرنی چاہیے اور اُن کے بارے میں اچھی رائے دینی چاہیے۔انہیں اپنے حجاب ہر فخر ہے  اور وہ سکارف پہن کر زیادہ جوش و خروش سے دوڑ میں شریک  ہوتی ہیں۔ ایسے اقدامات   مسلم  خواتین کو پُراعتماد بنائیں گے ۔اب یقیناًمسلم رَنرز کو امتیازی  حیثیت دی جائے گی۔وہ اپنی شناخت کو کہیں نہیں بھولتیں، پھر چاہے وہ دوڑ کا مقابلہ ہو یا کوئی اور میدان۔خطیب کو پوری امید ہے کہ وہ مخالفین کی سوچ کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی  ہیں اور میڈیا  کو بھی روشن خیالی سے متعارف کرانے میں وہ  اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔